آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کریمانہ سلوک
اُداس چہرہ، سفید ڈاڑھی،
ہاتھ میں لاٹھی، کھال میں سِلْوٹ، چال میں سستی،
بات میں لرزہ، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم ”بوڑھا“ کہتے ہیں،
انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہونچتی
ہے، بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامی مراحل ہنسی
خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے، رہن
سہن میں دشواری بھی نہیں؛ لیکن آج جو صورتحال سن رسیدہ
افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے عمر رسیدہ افراد کی
پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے؛ حالانکہ والد
نے بچے کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں
سہارا بنے گا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کو سہارا دیتا، کمر
کو بھی توڑ دیتا ہے۔ایک جانب معاشرہ کی یہ
صورتحال ہے، دوسری جانب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا
اسوہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کے ساتھ کمزوروں کے ساتھ ضعیفوں
کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر کیا، جہاں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ
افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی
مہیا فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن رسیدہ
افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ
کی عظمت وبڑائی کا تقاضہ یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا
جائے (ابوداوٴد: ۴۸۴۳
باب فی تنزیل الناس منازلہم، حسن) ایک موقع پر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں
سفید ہوئے ہوں، اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا (ترمذی: ۱۶۳۴ باب ماجاء فی فضل من شاب، صحیح) ان احادیث
سے سن رسیدہ افراد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اول
الذکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ کو حاملِ
قرآن وعادل بادشاہ پر بھی مقدم کیا ہے؛ حالانکہ ان دونوں کی اہمیت
وعظمت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے بوڑھوں کی رعایت کرتے ہوئے، ان کی حمایت فرمائی،
دوسری حدیث میں بڑھا پے کے اثرات کا اخروی فائدہ بیان
کیا کہ جس پر بڑھاپا اسلام کی حالت میں آیا ہو تواس کے لیے
اللہ اس بڑھاپے کی قدردانی کرتے ہوئے روزِ محشر نور مقدر فرمائیں
گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی
تلقین کرتے ہوئے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، (بخاری: ۶۲۳۴ باب تسلیم الصغیر علی الکبیر) بڑوں کے
اکرام واحترام کی ایک شکل سلام بھی ہے،بڑوں کی عمر ان کی
بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹے ہی بڑوں کو سلام کیا کریں؛
تاکہ یہ سلام چھوٹوں کی جانب سے بڑوں کے اکرام کا جذبہ بھی ظاہر
کرے، اور بڑوں کے لیے بھی دل بستگی کا سامان ہو، کئی
مقامات پر بڑوں کو بچوں سے اسی بات کی شکایت ہوتی ہے کہ
بچے انھیں سلام نہیں کرتے، فطری طور پر بڑے عزت کے طالب ہوتے ہیں،
کیوں نہ ہم ان کے اس تقاضے کا لحاظ کرتے ہوئے سلام کے ذریعہ ان کے جی
کو خوش کریں، مجالس میں کوئی مشروب آئے تو اس میں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ کیا اس کو اولاً بڑے نوش فرمائیں،
بڑوں سے آغاز ہو، فرمایا: بڑوں سے آغاز کرو؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو میں سے بڑے کو پہلے مسواک عنایت
فرمائی (ابوداوٴ: ۵۰ باب فی الرجل یستاک، صحیح) نیز آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایا:
اَلْبَرَکَةُ مَعَ
أکَابِرِکُمْکہ برکت تو تمہارے
بڑوں کے ساتھ ہے، کون ہے جو برکت کا متلاشی نہ ہو؟ کون ہے جو برکت کا طلبگار
نہ ہو؟ آج تو کئی ایک بے برکتی کے شاکی ہیں، ایسے
میں بر کت کے حصول کا آسان طریقہٴ کار یہ ہے کہ بوڑھوں کو
اپنے ساتھ رکھا جائے، ان کے اخراجات کی کفالت کی جائے، اس سے آمدنی
میں برکت ہوگی، نیز ایک موقع پر فرمایا: بات چیت
میں بھی بڑوں کو موقع دیا، کَبِّرِ الکِبَرَ، اس کی تشریح کرتے ہوئے یحییٰ نے فرمایا: بات چیت کا آغاز
بڑے لوگوں سے ہو، (بخاری: ۶۱۴۲ باب اکرام الکبیر) ایک موقع پر بوڑھوں کے اکرام کے
فضائل وفوائد ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نوجوان نے کسی بوڑھے کا اکرام اس کی عمر کی بنیادپر کیا
تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بڑھاپے میں اکرام کرنے والا شخص
مقرر فرمائیں گے(ترمذی: ۲۰۲۲ باب ما جاء فی اجلال الکبیر، ضعیف)کون ہے جو
اپنے بڑھاپے کو ہنسی خوشی پورا نہیں کرنا چاہتا ؟ کون ہے جو
بڑھاپے میں خدمت گزاروں سے کتراتا ہے؟ کون ہے جو بڑھاپے میں آرام
وسکون نہیں چاہتا؟ ان سب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ایک آسان نسخہ عنایت فرمایا کہ اپنے بوڑھوں کا اکرام کرو تمہیں
بڑھاپے میں خدمت گار مل جائیں گے، الغرض! مختلف مواقع پر مختلف انداز
سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی اہمیت وعظمت کو
واضح کیا، اور امت کو ان پر توجہ کی تعلیم دی، یہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق ہیں کہ امت کے ہر
کمزور طبقہ پر بذاتِ خود بھی رحم وکرم کا معاملہ کیا، اور وں کو بھی
رحم وکرم سے پیش آنے کی تلقین کی۔
بڑوں
کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل
ایک سن رسیدہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے
لوگوں نے مجلس میں گنجائش نہ پیدا کی، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہو کر فرمایا:
جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں
(ترمذی: ۱۹۱۹
باب ماجاء فی رحمة الصغیر) یعنی ایک مسلمان میں
جو صفات ہونی چاہیے ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی
ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم
مسلمانی صفت سے محروم ہے، اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا
خواستگار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے،
فتحِمکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے انھیں میں
ایک اہم واقعہ حضرت ابو بکر صدیق ص کے بوڑھے والد کا بھی پیش
آیا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ حق پر ست پر اسلام
قبول کرنے کے لیے انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
مجلس میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے
بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ان کو گھر ہی میں کیوں
نہ چھوڑا؟ میں خود ان کے گھر پہونچ جاتا (مستدرک حاکم: ۵۰۶۵ ذکر مناقب ابی قحافہ)
واضح رہے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اس کے باوجود بوڑھوں
کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحیمانہ وکریمانہ
سلوک ہے؛ حالانکہ دیگر فاتحین کا طرزِ عمل تو وہ ہے، جسے قرآن حکیم
نے بیان کیا ہے کہ جب فاتحین کسی بستی میں
داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو برباد کردیتے ہیں، اہلِ عزت
کو ذلیل کرتے ہیں، یہی ان کا طرہٴ امتیاز ہے،
(النمل: ۳۴)
یہ عمر رسیدہ
افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ
وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی
تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل
عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں،
بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم
سے کتراتا ہے؛ حالانکہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ
کی بہر صورت تعظیم کی جائے، نماز کے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم انتہائی حریص اس حرص وطمع کے باوجود بھی بوڑھوں کی
رعایت میں نماز میں تخفیف فرمادی، ابو مسعود ص
انصاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صحابی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ
میں ظہر کی نماز میں فلاں شخص کی طویل قرأت کی
وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا، ابو مسعود ص کہتے ہیں کہ میں نے اس
موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس غضبناک کیفیت میں
دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: نمازیوں میں
نماز سے نفرت مت پیدا کرو، لہٰذا جو بھی شخص امامت کرے وہ ہلکی
نماز پڑھا یا کرے، کیوں کہ اس میں کمزور بھی ہیں،
بوڑھے بھی ہیں، ضرورت مند بھی ہیں (بخاری: ۷۰۲ باب إذا طول الامام وکان الرجل ذاحاجة) ایک اور موقع پر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل قرأت کی شکایت کی
گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ص پر غصہ ہوتے ہوئے
فرمایا: فَتَّانٌ فَتَّانٌ!(بخاری: ۷۰۱ باب إذا طول الامام) اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں
ڈالنے والے ہو! تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو
دھرایا، غور وخوض کا مقام ہے کہ سن رسیدہ اور کمزور افراد کی
رعایت کا سلسلہ نماز جیسے اہم فریضہ میں بھی جاری
ہے، بڑھیا کا مشہور واقعہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے بڑھیا کا سامان اٹھا کر شہر مکہ کے باہر پہونچا دیا تھا؛ حالانکہ
وہ بڑھیا جو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی میں مصروف تھی؛ لیکن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے طفیل اس بڑھیا نے
بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ایک دفعہ مجلس میں بائیں
جانب اکابر صحابہٴ کرام ث تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک
بچہ تھا اور مجلس میں کوئی مشروب پیش ہوا تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چونکہ تم دائیں جانب ہو
اگر تم اجازت دو تو میں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ کرام ث سے کروں، اس بچے نے
اپنے آپ پر کسی کو ترجیح دینے سے انکار کردیا؛ چنانچہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشروب اسی کے ہاتھ میں تھما دیا،
(بخاری: ۲۳۶۶،
باب من رأی أن الحوض الخ) غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے بائیں جانب بڑوں کی موجودگی کے باوجود اس بات کی
کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے
اجازت بھی مانگی؛ لیکن بچے نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے نوش کردہ برکت کی وجہ سے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہ دی،
اس سے بھی بڑوں کے ساتھ اکرام کا درس ملتا ہے کہ بہر صورت ان کے اکرام کی
کوشش کی جائے، ان کی توہین سے بیزارگی کا اظہار ہو۔
ان اقوال واحوال کا سرسری جائزہ لینے
سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے بوڑھوں کا ہر موقع پر لحاظ فرمایا، کسی بھی بوڑھے کا
اکرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد
پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی،آج ضرورت اس بات کی
ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ
کیا جائے، ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں، کسی
چیز کے ذریعہ بڑھاپے میں انھیں تکلیف نہ دیں،
ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی
دعاوٴں میں شامل ہوں، بعض دفعہ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں
سے نظر انداز کریں۔
حیوانات
کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا رحیمانہ سلوک
اس دور میں جب کہ مسلمانوں کی
شبیہ بگاڑ کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے،
مسلمانوں کو مسیحا کے بجائے قاتل، صلح پسند کے بجائے جنگجو، امن پسند کے
بجائے شدت پسند کے عنوان سے متعارف کرنے کی پیہم کوشش جاری ہے،
دشمنانِ اسلام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مسلمان
کبھی شدت پسند وجنگجو ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ اس کا رشتہ
ایسے نبی کریم ا سے ملتا ہے، جو صرف انسانیت ہی کے
لیے نہیں؛ بلکہ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیے
گئے ہیں، جن کی رحمت کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا؛
بلکہ اس سے متجاوز ہو کر آپ کا سایہٴ عاطفت ورحمت چرند پرند حیوانات
تک کے لیے عام تھا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
تعلیمات کے ذریعہ جانوروں کے ساتھ نرمی کی ہدایات دیں،
وہیں عمل کے ذریعہ بھی جانور کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کردکھا
یا، آج جب کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر کئی تنظیمیں
بیدار ہورہی ہیں، کئی حکومتیں جانوروں کے تحفظ کے لیے
سرگرم مہمیں چلارہی ہیں، جانوروں کے حقوق کی رعایت
نہ کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں تجویز کی
جارہی ہیں، ان قوانین کے پامال کرنے والوں کو قید وبند کی
صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑرہی ہیں، قربان جائیے
نبیِ اکرم ا پر جنہوں نے آج سے چودہ صدی قبل حیوانات کے حقوق کے
تحفظ اور ان کی حمایت کا اعلان فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے جانوروں کو بھوکا رکھنے، اسے تکلیف دینے، اس پر سکت سے زائد
بوجھ لادنے سے منع فرمایا، نیز جانور کو نشانہ بنانے، جانور پر لعنت
کرنے والے کو مجرم قرار دیا، جانوروں کو تکلیف دینے کو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے دل کی سختی میں سے شمار کیا ۔
جانور کے ساتھ رحم وکرم ان کے ساتھ نرمی
کے بے شمار واقعات کتابوں میں مذکور ہیں؛ لیکن ہم چند واقعات
واقوال کے نقل پر اکتفاء کرتے ہیں۔
نشانہ
بازی
زمانہٴ جاہلیت میں
جانوروں کو تکلیف دینے کی رائج صورتوں میں ایک اہم
صورت زندہ جانور کو نشانہ بازی کے لیے مقرر کرنا تھا، غور کیجیے
زندہ جانور کو جب تیروں کے ذریعہ چھلنی کیا جاتا ہوگا تو
وہ کس قدر انھیں تکلیف ہوتی ہوگی، آپ نے اس سے منع فرمایا،
ایک دفعہ ابن عمر ص قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جو ایک
زندہ پرندہ کو لٹکا کر نشانہ بازی کررہے تھے، وہ ابن عمر ص کو دیکھ کر
متفرق ہوگئے، ابن عمر ص نے ان سے دریافت کیا: یہ کس نے کیا
ہے؟ اس فعل کے مرتکب پر اللہ کی لعنت ہے،پھر ابن عمر ص نے آپ کا قول نقل کیا:
اللہ کی لعنت اس شخص پر ہے جس نے نشانہ بازی کے لیے ذی
روح کو استعمال کیا(مسلم: ۹۵۸، باب صبر البہائم) ایک دفعہ ابن عمر ص یحییٰ
بن سعید ص کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک غلام مرغی کو باندھ
کر نشانہ بازی کررہا ہے، ابن عمر ص نے اس مرغی کو کھول دیا، پھر
لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، اس بچے کو ڈراوٴ! اس طرح پرندہ
کو قید کرکے قتل کرنے سے روکو؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے جانوروں کو قید کرکے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے(بخاری: ۵۵۱۴ مایکرہ من المثلة)
پرندہ
اور اس کے والدین میں جدائیگی
اولاد سے فطری محبت جس طرح اللہ
تعالیٰ نے انسانوں میں ودیعت کررکھی ہے، اسی
طرح اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیا
ہے، بعض طاقتور جانور تو اولاد کی جدائیگی پر حملہ آور بھی
ہوجاتے ہیں؛ لیکن جو جانور کمزور ہو اولاد سے وہ جدائیگی
کے غم میں گھٹ جاتا ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے سفر میں پیش آیا، ابن مسعود ص فرماتے ہیں
ہم سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے
تشریف لے گئے، اتنے میں ہم نے ایک سرخ پرندے کو اس کے چوزوں سمیت
دیکھا، لہٰذا ہم نے بچوں کو اٹھالیا، ان چوزوں کی ماں آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور
اپنے بازوہلا کر کچھ کہنے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ
کرام سے پوچھا کس نے اس پرندے کے بچوں کو اس
سے جدا کر کے تکلیف دی ہے، اس کے بچوں کو لوٹا دو (ابوداوٴد: ۳۶۷۵،کراہیةاحراق العدو بالنار)
مثلہ
کی ممانعت
جانوروں کو زندہ رکھ کر اگر اس کے اعضاء
وجوارح کو کاٹا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوگی؟ اس کا اندازہ کرنا
دشوار ہے، جانوروں کو جن ذرائع سے تکلیف دی جاتی، انھیں میں
ایک طریقہ زمانہٴ جاہلیت میں مثلہ کا بھی
رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہٴ کار کی
مذمت کی، اور اس کے مرتکب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت
فرمائی ، جس شخص نے جانور کا مثلہ کیا، اس پر آپ نے لعنت فرمائی
(بخاری: ۵۵۱۵
مایکرہ من المثلة) ایک دفعہ مثلہ زدہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے قریب سے گزرا تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے اس کے مرتکب پر
لعنت فرمائی (مسلم: ۲۱۱۷ باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ)
جانوروں
پر احسان، مغفرت کا ذریعہ
کسی کی ضرورت کی تکمیل،
کسی کی تکلیف کا دفعیہ، جس طرح اس کی ضرورت انسانوں
میں پائی جاتی ہے، اسی طرح جانور بھی احسان کے
مستحق ہوتے ہیں؛ بلکہ بے زبان جانور انسانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ
ہی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی تکلیف
بیانی کے لیے زبان نہیں رکھتے، لہٰذا آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے جہاں انسانوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی
ہے، وہیں جانوروں کے ساتھ بھی احسان کی ترغیب دی
ہے؛ بلکہ بعض خصوصی مواقع پر جانوروں کے ساتھ احسان کو مغفرت کا ذریعہ
قرار دیا؛ چنانچہ آپ نے فرمایا: ایک راہ رو پیاس سے بے
تاب ہوکر کنواں میں اتر کر پانی پی لیتا ہے، جب کنواں سے
باہر نکلتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیاس کی
شدت سے کیچڑ کھارہا ہے، اس شخص نے محسوس کیا کہ یہ کتا بھی
میری ہی طرح پیاسا ہے، لہٰذا وہ شخص کنواں میں
اترا، اور اپنے موزے میں پانی بھر لیا، اور کتے کو سیراب
کیا، اس خدمت پر اللہ نے اس بندہ کی قدر دانی کی، اور
اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی، صحابہٴ کرام نے سوال کیا؟ کیا ہمیں
جانوروں پر بھی احسان کرنے سے اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ہر ذی روح پر احسان کرنے سے اجر ملے گا (بخاری:
۶۰۰۹، باب رحمة الناس والبہائم) اس سے تعجب خیز واقعہ وہ ہے
جو ابوہریرةص سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایک دفعہ پیاس کی شدت سے ایک کتا کنواں کے ارد گرد گھوم
رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائے، اچانک ایک
گنہ گارعورت جو بنی اسرائیل کی تھی، اس نے اپنے موزے کو
نکالا، اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی
مغفرت فرمادی، (بخاری:۳۴۶۷) غور کرنے کا مقام ہے، ایسے جانورکے ساتھ رحم کرنے کو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے ، جسے
بعض علماء نے نجس العین تک قرار دیا ہے، بعض علماء نے اگر کتا برتن میں
منھ ڈال دے تو سات آٹھ دفعہ برتن کو دھونے کا حکم دیا ہے، اس کے بالمقابل
جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک بعض دفعہ انسانوں کو جہنم میں بھی لے جاتا
ہے، ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کے سلسلے میں
جہنم میں چلی گئی، اس عورت نے بلی کو باندھ دیا
تھا، اس کو نہ کھلاتی تھی اور نہ ہی اس کو چھوڑتی تھی
کہ باہر وہ اپنی غذا کا انتظام کرسکے، حتی کہ وہ کمزور ہوگئی
اور مر گئی(مسلم: ۲۶۱۹)
جانوروں
کے ساتھ نرمی کا معاملہ
نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم خود بھی نرمی کا برتاوٴ کرتے تھے؛ بلکہ حضرات
صحابہٴ کرام ث کو بھی اس کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ
ایک اونٹ بدک گیا، صحابہٴ کرام ث کے لیے اس اونٹ کو
سنبھالنا دشوار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں
داخل ہوئے جس میں یہ اونٹ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اونٹ کی طرف بڑھ رہے تھے، تو صحابہٴ کرا م ث نے کہا: یہ اونٹ
کٹخنے کتے کی طرح ہوگیا ہے، یہ آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں،
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ پر نظر التفات کیا تووہ
اونٹ سجدہ ریز ہوگیا، آپ نے اس کی پیشانی پکڑی
اور اسے کام پر لگادیا، یہ دیکھ صحابہٴ کرام ث کہنے لگے،
جب جانور آپ کو سجدہ کرسکتا ہے، ہم انسان ہو کر آپ کو سجدہ کیوں نہ کریں،
کسی انسان کے لیے سجدہ درست نہیں، اگر کسی انسان کے لیے
سجدہ درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ
کرے(مسند احمد: ۱۲۶۱۴) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں
داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اس نے جیسے ہی آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس کے آنسو پوچھے، وہ خاموش ہوگیا، آپ نے اس کے مالک کے سلسلہ میں
دریافت کیا تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ میں
اس کامالک ہوں، آپ نے فرمایا: کیا تم جانور کے سلسلہ میں اللہ
سے نہیں ڈرتے، جس کا اللہ تمہیں مالک بنایا ہے، اس سے کام زیادہ
لیتے ہو، اور بھوکا رکھتے ہو، (ابوداوٴد:۲۵۴۹)
ذبح
میں احسان کا پہلو
جانور بھی بڑی حساس طبیعت
کے مالک ہوتے ہیں، وہ بھی آثار وقرائن سے پتہ لگالیتے ہیں
کہ اب ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے؛ اسی لیے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے جانور کے سامنے چاقو وغیرہ تیز کرنے سے منع کیا،
اس سے جانور کو گھبراہٹ ہوگی، نیز آپ نے ذبح میں احسان کے پہلو
کو اپنانے کی بھی ترغیب دی کہ جانور کو مکمل طور پر ذبح کیا
جائے، کہیں اسے تڑپتا ہوا نہ چھوڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کو لازم کیا
ہے، جب تم قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، جب تم ذبح کرو تو اچھی
طرح ذبح کرو، چھری کو تیز کر لیا کرو، اور مذبوح کو راحت
پہونچاوٴ(مسلم : ۱۹۵۵) ایک صحابی نے فرمایا: یا رسول اللہ …!
میں بکری کو ذبح کرتا ہوں، اس پر رحم بھی آتا ہے، آپ نے فرمایا:
اگر تم نے بکری پر رحم کیاتو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے
گا(مسند احمد: ۱۵۵۹۲)
ابن عباس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: ایک صحابی جانور کو لٹا کر چھری تیز
کرنے لگے، آپ نے فرمایا: تم اس جانور کو کئی موتوں سے مارنا چاہتے ہو،
لٹانے سے پہلے ہی چھری کیوں نہ تیز کی (مستدرک
حاکم: ۷۵۶۳)
ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس نے مذبوحہ چڑیا ہی
پر رحم کیوں نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ روزِ محشر اس پر رحم
فرمائیں گے، (طبرانی کبیر: ۷۹۱۵) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پر لعنت
کرنے سے بھی منع فرمایا، ایک سفر میں ایک صاحب
جانور پر لعنت کرنے لگے، آپ نے فرمایا: جس نے اس اونٹنی پر لعنت کی
ہے، وہ ہمارے ساتھ نہ آئے (مسند احمد: ۱۹۷۶۵)
الغرض! آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی زندگی جانوروں پر رحم کے واقعات سے بھر ی پُری
ہے، یہ چند نقول ہیں جس سے ہمیں عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی
ضرورت ہے کہ ہم خلقِ خدا کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کریں۔
$ $ $
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7،
جلد: 98 ، رمضان المبارك 1435 ہجری مطابق جولائی 2014ء